کہانی
آج میں آپ کو اپنی زندگی کا وہ کڑوا سچ بتانے جا رہا ہوں جس نے میری دنیا اندھیر کر دی میری غلطیوں کا خمیازہ میرے خاندان کو بھگتنا پڑھا میں خود ہی اپنی اس داستان کا راوی ہوں ہو سکتا ہے کوئی میرے انجام سے ہی سبق سیکھ لے
جہانزیب لغاری ) یعنی کہ میں( دلبری کے سارے انداز جانتا تھا میں نے اپنی شخصیت کے ارد گرد دلکشی کے سارے عنبر و لوبان سلگا رکھے تھے
ویسے بھی کسی مرد کے آس پاس شہرت ، اعلیٰ حسب نسب کے ساتھ دولت کے انباروں کا اجالا ھو تو تصورات کی ڈسی صنف نازک اس کے ارد گرد منڈلانے لگتی ہیں
جہانزیب لغاری اٹھائیس سالہ ایک خوبرو مرد تھا اسے خدا نے مردانہ حسن سے جی بھر کر نوازا تھا کس مہ وش میں اتنا دم تھا کہ اسے ایک دفعہ دیکھ کر دوبارہ نہ دیکھنا چاہے
وہ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اور یہ اس کا آخری سال تھا ساری یونیورسٹی میں اس کی ذہانت خدا ترسی کے چرچے تھے
اسے سب دوست پیار سے جان کہتے تھے ایسا کون سا میدان تھا جہاں کا وہ شہ سوار نہیں تھا شاعری ہو یا سنگنگ کے میدان ہوں یا لڑکیوں کو لوٹنے کے وہ ہر فن میں اپنی مثال آپ تھا –
جب وہ اشعار کہتا تو ایک منجا ہوا شاعر لگتا اور جب وہ یونیورسٹی میں یاں کسی بھی فنکشن میں اپنی آواز کا جادو جگاتا
تو سننے والا بے ساختہ کہہ اٹھتا ایسی سنگنگ تو اس سانگ کے اصل سنگر نے بھی نہیں کی ھو کیا غضب کی آواز ہے وہ بہت ساری دل پھینک لڑکیوں کا محبوب تھا
وہ جس سے ملتا اس سے باتیں ہی ایسی کرتا وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی تصور کرتی
کسی کو اس کی شاعری پسند تھی اور کسی کو سنگنگ کوئی اس کی وجاہت کی دیوانی تھی
تو کوئی اس کی اعلیٰ ذہانت کی اور ان مہکتی اور مچلتی جوانیوں سے لطف اندوز ہونے کے سارے ہی گر جانتا تھا اگر کوئی لڑکی اس کو بھا جاتی اور وہ اس کی ان خوبیوں پر فدا نہ ہوتی
تو بھی اس کے ترکش میں چند ایسے تیر بھی تھے جو کبھی خطا نہ جاتے اس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا تھا
وہ محبت کے معاملے میں زخم خوردہ ہے ''بس ؛؛ بس ان کو ہر دل عزیز کرنے کو اتنا ہی کافی تھا ہر لڑکی یہ سن کر حیران ہوتی
کہ کون تھی وہ بدنصیب جس نے اس شہزادے کا دل توڑا اسے اور کیا چاہیے تھا اور جہانزیب کا طریقہ واردات بھی عام مردوں سے جدا تھا جب کوئی لڑکی قریب آ کر آنچ دینے لگتی تو وہ یوں گم صم ہو کر خلاؤں میں کھو جاتا جیسے اس کے پاس آگ نہیں برف کا تودہ رکھا ہے
کافی دیر خلا کی آپ بیتی سننے کے بعد وہ پائپ میں خوشبو دار تمباکو بھرکر فضا میں خوشبو دار دھواں آہوں' کی صورت میں چھوڑنے لگتے کڑوے دھوئیں کی جان لیوا خوشبو سے لڑکی کا ارمانوں بھرا چہرہ دھندلانے لگتا تو اس کی معصوم و مصفا آنکھوں میں اپنی ذات کی نفی کا کرب جاگ اٹھتا
تب وہ ہر ندی پار کرنے کا تہیہ کر لیتی اور اگر کبھی جہانزیب کی کوئی دکھتی رگ اس کے ہاتھ آ جاتی تو وہ کچھ اور آگے بڑھنا چاہتی تب جہانزیب اپنے اسی مار ڈالنے والے انداز میں ایک ٹھنڈی سانس چھوڑتے
اور کہتے
'' دوست ' نہ کوشش کرو ! میں اب ان باتوں سے بہت دور ہوں ' تب وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی پر کیوں جان جی کیوں ؛ وہ تڑپ کے یہی سوال کرتی جاتی
تو پھر جہانزیب ایک اور ٹھنڈی سانس چھوڑتے اور دوبارہ اپنے اندر جذب کر کے کہتے
'' چوٹ ' کھا چکا ہوں ؛ دوبارہ نہیں کھاؤں گا بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی کون تھی وہ بد بخت اور کم ظرف تو جان جی اسے نرمی سے ٹوک کر کہتے پلیز اسے کچھ نہ کہو اور دوبارہ سے فضاوں میں دھواں چھوڑنے لگتے
''اہونہہ ! لڑکی کو اس بے وفا لڑکی پر انتہا کا غصہ آتا جو جاتے جاتے جان جی کا دل پتھر کر گئی تھی وہ جب اصرار کرتی کہ اسے بتائیں وہ کون تھی تب جہانزیب اپنی درد میں ڈوبی آواز میں کہتے میرے ساتھ کھیلتی تھی میرے ساتھ پڑھتی تھی
ہم نے کوئلے سے گاؤں کی کچی دیواروں پر اپنے نام لکھتے تھے - چاک کے ٹکڑے سے بیلک بورڈ پرسلام لکھتے تھے - اور آنکھوں کی روشنائی سے ایک دوسرے کے دل پر پیغام لکھتے تھے - یہاں آ کر وہ خاموش ہو جاتے تو وہ لڑکی اضطراب میں ڈوب کر پوچھتی
'' پھر '' جان جی پلیز پھر کیا ہوا بتائیں پلیز اور جان جی اس وقت سارے جہاں کا درد اپنے لہجے میں سمو کر کہتے '' پھر اسے عقل آ گئی '' اور دوبارہ سے خاموش ہو کر فضا میں کوئی ان دیکھی سی تحریر پڑھنے لگتے اس وقت وہ لڑکی بے صبری سے کہتی
'' جان جی '' اس نے آپ کو چھوڑا کیوں تو جان جی کہتے دوست ہماری وفا ہی ہمارا قصور بن گئی وہ کہتی تھی آپ کو سوائے چاہت کے آتا ہی کیا ہے میں امریکہ جانا چاہتی ہوں اور جہانزیب آپ نہیں جاؤ گئے اس نے اپنے ایک امریکہ پلٹ کزن سے شادی کر لی اور چلی گئی
ساتھ ہی جان جی اپنی آواز اب کی بار نمی پروتے اور اپنی قاتلانہ آواز میں دل نشین لہجے میں شعر کہتے
کوئی اس طرح میرے ساتھ عداوت کرتا
قید کر لیتا مجھے اور حکومت کرتا ....
میں نے کب کہا تھا وہ چھوڑ دے سب کو
وہ اپنے انداز سے ہی سہی پر محبت تو کرتا
بس یہ یہ سننا تھا کہ جان جی کا شکار وہ لڑکی لرز جاتی جان جی کا اتنا ٹوٹا لہجہ دیکھ کر اور کہتی اف کتنی نادان تھی وہ لڑکی کم ظرف نے ایک ہیرے کی قدر نہیں کی دیکھنا جان جی وہ بھی کبھی سکھی نہیں رہے گئی
اسی وقت جان جی اس لڑکی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے نہیں نہیں اسے کوئی بد دعا نہ دو میں تو آج بھی دعا کرتا ہوں وہ جہاں رہے خوش رہے اور جان جی اب اپنے ترکش کا ایک اور تیر چھوڑتے خدا کرے اس کے نصیب کے سارے دکھ مجھے ملیں اور میرے سارے سکھ اس کو
اور وہ لڑکی اب دل ہی دل میں سوچتی ایسے دل والے کے لئے تو سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے پھر وہ لڑکی جان جی سے کہتی پلیز کسی ایک ہی خطا میں سب کو تو سزا نہ دیں
وہ لڑکی ڈرتی جھجھکتی اس دوراہے پر پہنچ جاتی جہاں لاج کا گھونگھٹ اتار پھینکتے ہیں
جان جی آپ کسی کو اپنا لیں تو جان جی کہتے دوست کون لڑکی کسی خالی گھر میں رہنا پسند کرتی ہے میں شاید اب کسی سے پیار نہیں کر سکوں گا یہ سنتے ہی اس لڑکی کے حلق میں آنسوؤں کے گرد باد پھنس جاتے
تب جان جی اس لڑکی کے پھول جیسے چہرے پر نظریں گاڑ کر کہتے
تم ہی سوچوں کون لڑکی کسی ایسے مرد سے پیار کری گئی جو پہلے ہی کسی کی یاد میں اپنا آپ ہار چکا ھو اپنا سب کچھ لوٹا چکا ھو جس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون کھو چکا ھو
نہیں دوست ایسی کوئی لڑکی نہیں ہو سکتی بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کر بلکنے لگتی
'' کیوں نہیں '' جان جی کیا کمی ہے آپ میں آپ جیسا کوئی نہیں ہو سکتا سب ایک جیسی نہیں ہوتیں آپ ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں اس وقت وہ لڑکی اپنی نسوانی آنا کو ایک طرف رکھ کرکہتی جان جی میں آپ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں اپنا سب کچھ آپ پر وار سکتی ہوں اب جان جی اپنے ترکش کا سب سے کڑھا اور سخت تیر چلاتے اس لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی آواز بوجھل کر کے کہتے دوست آپ ابھی یہ نہیں سمجھ رہی کیا کہہ رہی ہیں نادانی کی باتیں کر رہی ہیں ایسا کوئی نہیں کرتا کسی کے لئے سب کہنے کی باتیں ہیں
وہ بھی اپنا تن من مجھ پر وارنے کا کہا کرتی تھی اور پھر اب جان جی ایک ٹوٹا ہوا قہقہ لگاتے اور اس لڑکی کو وہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے پیچھے سے وہ لڑکی اپنے آپ سے عہد کرتی اگر اس مرد کو نہ پایا تو کچھ نہ کیا اس کی چاہے مجھے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑھے
آج یہی سب آنسہ جاوید کے ساتھ ہوا تھا وہ جہانزیب کے جانے کے بعد ابھی تک وہی کھڑی تھی اس کا دل تھا کہ جان جی کے لئے مچلا جا رہ تھا
آج اس نے اسی سوچ میں دو پریڈ مس کر دئیے وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں اپنا سر میز پر رکھے خاموشی کی آواز میں بلک رہی تھی جان جی جا چکے تھے
لیکن ان کی خوشبو ابھی بھی اس کے چار سو پھیلی ہوئی تھی اسی لمحے اس کی دیرینہ دوست عندلیب اسے ڈھونڈتی ہوئی وہاں آ گئی اور اسے اس حال میں دیکھ کر تڑپ کے بولی آنسہ جانو کیا بات ہے تو آنسہ نے اپنی قریبی دوست کے گلے لگ کر آنسوؤں کے دریا بہا دئیے
عندلیب پریشان تھی اسے کیا ہوا ہے پھر کافی دیر بعد خود کو سنبھال کر اس نے عندلیب سے کہا تم کو میری قسم سچ بتانا کیا میں خوبصورت نہیں ہوں یہ سن کر عندلیب نے کہا
آنسہ صرف خوبصورت کہنا آپ کی توہین ہے آپ تو ایسے جسم کی مالک ھو جوان تو جوان آپ کو دیکھ کر بوڑھوں کے جذبات بھی مچل جاتے ہیں
میں نے آج تک آپ جیسی پیاری لڑکی نہیں دیکھی یہ تھا بھی سچ آنسہ جاوید دراز قد لڑکی تھی اس کا فگر ہی ایسا تھا جس کو سب ہی للچائی نظر سے دیکھتے تھے وہ چھتیس ڈی اٹھائیس اڑتیس جیسے فیگر کی مالک تھی اوپر سے اس کا دودھیا رنگ
لمبی اور اور ترچھی پلکوں کے نیچے موٹی موٹی آنکھیں
اوپر کو اٹھی مغرور ناک صراحی دار لمبی گردن کولہوں سے نیچے تک لمبے اور کالے سیاہ چمکدار بال وہ کتابی حسن کا منہ بھولتا ثبوت تھا جو اسے ایک نظر دیکھ لیتا پھر وہ بے اختیارانہ اسے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا عندلیب نے اس سے پوچھا کیا بات ہے
تو اس نے اپنی ہمراز دوست کو سب کچھ بتا دیا جسے سن کر عندلیب نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا آنسہ وہ بہت رووڈ اور سخت دل کا مالک ہے اس کے خواب اپنی آنکھوں میں مت سجانا ورنہ پچھتاؤ گئی یہاں کی کافی لڑکیاں اسے پانے کے خواب دیکھتی رہی ہیں
جان جی کی ایک خوبی یہ بھی تھی اس کے نیچے سے اٹھ کر جانے والی لڑکی نے کبھی اپنی زبان نہ کھولی تھی یہی وجہ تھی وہ سب کی نظر میں گھمنڈی تھا
لیکن سچ تو یہ تھا وہ اس یونیورسٹی کی کافی لڑکیوں کو اپنے توانا لن سے نواز چکا تھا ایک دو تو لیکچرار بھی تھیں
جن کی ترستی چوتوں کو اس نے اپنے لن سے سیراب کر کے ان کی پیاس مٹائی تھی لیکن پتہ نہیں کیا جادو تھا
جہاں زیب کے لن میں جو لڑکی ایک دفعہ اسے اپنی چوت میں لے لیتی وہ ساری عمر کے لئے اس کی غلام ہو جاتی اور اس کے راز کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
لغاری پیلس کے ایک شاہانہ طرز کے بیڈ روم میں آرام داہ کرسی پر جہانزیب آگے پیچھے جھول رہا تھا - اس نے آنکھیں بند کیں ہوئیں تھیں وہ خیالوں ہی خیالوں میں آنسہ کو بے لباس اپنے بازوؤں کے گھیرے میں دیکھ رہا تھا اسی وقت اس کا اکلوتا دوست عادل نواز لغاری کمرے میں داخل ہوا یار کمال ہے ابھی تک تیار نہیں ہوئے چلو جلدی سے اٹھو اور تیار ہو جاؤ جان جی نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور زیر لب مسکرا کر بولا آج خیر ہے میرے جگر پرآج بہت جلدی کا بھوت سوار ہے
عادل نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا آج کیا تاریخ ہے جہانزیب نے بے ساختہ کہا سات جنوری اور ساتھ خود بھی چونک اٹھا اوہ مائی گاڈ آج تو فریال آپی کی شادی کی سالگرہ ہے یہ کہتے ہی وہ تیزی سے اٹھا اور اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا وہ آج اپنی روٹین سے ہٹ کر صرف سات منٹ میں غسل کر کے باہر آیا
ڈریسنگ روم میں جا کر اس نے ایک سفاری رنگ کا بہترین اور انتہائی قیمتی کپڑے کا لباس پہنا وہ اور عادل دونوں سگے چچا زاد تھے عادل اکلوتا تھا اور جہانزیب دو بہن بھائی تھے فریال ان دونوں سے دو سال بڑھی تھی دونوں ہی اسے دیوانوں کی طرح پیار کرتے تھے
اور دنیا میں اگر جہانزیب کسی سے مخلص تھا تو وہ دو ہی ہستیاں تھیں ایک عادل دوسری اس کی آپی فریال عادل نے آج بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا جو اس پر کافی جچ رہا تھا
لیکن جب جہانزیب ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو بے ساختہ اسے دیکھ کر عادل کے لبوں سے دعا نکلی خدا تجھے نظر بد سے بچائے میرے شہزادے
تو واقعی لغاری خاندان کا پرنس ہے جہانزیب کے والد شہباز حیدر لغاری جاگیر دار ہونے کے ساتھ ہی بیورو کریٹ بھی تھے
وہ وزارت داخلہ میں فرسٹ سیکرٹری تھے - اور عادل کا والد نواز حیدر لغاری اپنے حلقے سے ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھا اور ساتھ میں اس نے ایک بزنس ایمپائر بھی کھڑی کر رکھی تھی ان کی کئی گھی ملز اور شوگر ملیں تھیں اب عادل نے خود اپنی ذاتی کھاد بنانے کی فیکٹریاں لگائیں تھیں جس میں اس نے جان جی کو پارٹنر رکھا تھا وہ جان جی سے کچھ نہیں چھپاتا تھا لیکن جان جی نے اسے اپنی لوز حرکتوں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی وہ خاندان کا سب سے خوبصورت اور مغرور لڑکا تھا
جان جی ایک اصول بنا رکھا تھا کہ وہ کسی جاننے والے کی لڑکی سے سیکس نہیں کرے گا یہی وجہ تھا وہ آج بھی اپنے خاندان کی لڑکیوں کے خوابوں کا شہزادہ تھا
اب وہ دونوں ہی اپنی ذاتی مرسڈیز میں بیٹھے اور آگے پیچھے ہی ملک ہاؤس ،میں داخل ہوئے جہاں کافی سارے مہمان آ گئے تھے
فریال اپنے خاوند کامران ملک کے ساتھ سب کو ویلکم کر رہی تھی ان دونوں کو دیکھتے ہی کامران نے کہا لو جی آ گئے آپ کے شہزادے عادل اور جہانزیب دونوں نے اپنی گاڑی کھڑی کی اور اپنے اپنے گفٹ کے ڈبے نکال کر اپنی بہن کی طرف بڑھے
فریال نے پیار سے دونوں کو ایک ساتھ ہی اپنے گلے لگایا اور باری باری دونوں کا ماتھا چوم کر کہا یار اتنا لیٹ اب عادل نے جان جی کی طرف دیکھا اور کہا آپی کچھ بزی سوری ابھی وہ باتیں کر رہے تھے
کہ اسی وقت ان کے والدین کی گاڑیاں بھی داخل ہوئیں وہ سب آگے بڑھے اور سب کو سلام کیا
اسی وقت نواز صاحب نے کہا دیکھا بھائی جی میں نہ کہتا تھا عادل یہ دن کبھی مس نہیں کرے گا اب شہباز صاحب نے پائپ کا کش لاگا کر خوشبو دار تمباکو کا دھواں چھوڑا اور بولے بیٹا آپ میرے ساتھ ہی آ جاتے تو جان جی نے حیرت سے پوچھا کہاں سے پاپا تب وہ بولے یار ایک بزنس میٹنگ تھی
آج عادل کی اسلام آباد میں یہ صبح تو وہی تھا کیا بنا اس میٹنگ کا مجھے باقری صاحب بتا رہے تھے آپ نے ان سے کہا ہے کل کا وقت رکھ لیں بیٹا وہ پارٹی بیرون ملک سے آئی تھی آپ آج ہی مل لیتے تو عادل نے کہا بڑے پاپا میٹنگ تو روز چلتی ہے پر میری بہن کی سالگرہ سال بعد آتی ہے
یہ سن کر جہاں جان جی کو اپنے دوست اور کزن پر پیار آیا وہاں فریال تو واری صدقے گئی بھائی کے اور کامران ملک بھی متاثر ہوا ان بہن بھائیوں کی محبت دیکھ کر پھر وہ سب مہمانوں سے ملے کامران ملک شوقین مزاج آدمی تھا اس نے آج کے فنکشن کو چار چاند لگوانے کے لئے
سنگنگ اور شاعری کہنے والوں کا بھی بندو بست کر رکھا تھا پھر جوں جوں رات چھاتی گئی محفل بڑھتی ہی گئی پھر فریال اور کامران ملک نے اپنی شادی کا کیک کاٹا سب ہی نے ان کو وش کیا اور اپنے اپنے تحائف دئیے بعد میں سب ہی نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا
اب جو جانے والی تھے وہ چلے گئے اور جو آج کی محفل کی رونقیں دیکھنا چاہتے تھے وہ یہی رہے ساری رات یہ پروگرام چلتا رہا آج جان جی نے جان بوجھ کر خود شرکت نہ کی کیوں کہ وہ اپنے والد اور چچا کے سامنے ایسی حرکتیں نہیں کرتا تھا
٭ ٭ ٭٭ ٭
آنسہ اپنے بیڈ پر کروٹیں بدل رہی تھی اسے کسی پل بھی چین نہیں آ رہا تھا اس کی تو جیسے نیند ہی اڑ گئی تھی آج اس کی خالہ زاد کزن مہ وش بھی آئی ہوئی تھی
لیکن پھر بھی اس کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا مہ واش جو اس کے ساتھ ہی آج سوئی تھی اس کی ان کروٹوں سے اس کی آنکھ کھل گئی
0 comments:
Post a Comment