لا
سوامی جی نے میرا دودھ نکالا
سوامی جی نے میرا دودھ نکالا
دوستوں یہ سٹوری میں نے نیٹ پر انگلش میں پڑھی تھی اس کا اردو ترجمہ کر رہا ہوں۔
میرا نام سونالی ہے۔ میں دہلی میں رہتی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں میری شکل جوہی چاولہ سے بہت ملتی ہے۔ میرا رنگ گوراہے اور میرا فگر ۳۶۔۲۸۔۳۴ ہے۔ میں شادی شدہ ہوں اور ایک بچے کی ماں ہوں۔ اس وقت میری عمر ۲۰ سال تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔میں اور میرے شوہر خوشحال شادی شدہ ذندگی گزار رہے ہیں۔ شادی کے ایک سال بعد میں نے ایک بچے کو جنم دیا۔ہم نے بچے کا نام رکھنے کی رسم کے لیے ایک لوکل پنڈت کو بلایا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت صبح کے ۱۱ بجے تھے اور پنڈت ہمارے گھر داخل ہو ا تھا۔ اس کی عمر ۶۰ سال سے اوپر ہوگی۔اس کی سفید کالی مکس مونچھیں اور دھاڑی تھی۔ سر پر بہت کم بال تھے۔پنڈت کو ہم نے خوشامدیدکہا۔ اس نے ہمارے بچے کا،میرا اور میرے شوہر کا جنم دن اور پیدائش کا وقت پوچھا۔ میں نے اس کو یہ سب بتا دیا۔ اس نے یہ سب کاپی پر لکھا اور میرے بچے کے لیے اجے نام رکھنے کا مشورہ دیا۔میں نے اس کے چہرے پر پریشانی دیکھی۔ میں نے کہا ’’سوامی جی کیا بات ہے؟ ‘‘تو اس نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا’’ تمہارے نئے بچے کا ستاروں کا حال کچھ اچھا نہیں ہے، میرا مطلب ہے کہ بچے اور اس کے باپ کے لیئے کچھ مسائل ہیں جو ان کی ذندگیوں پر اثر انداذ ہوں گئے‘‘۔میں یہ سن کر شاک میں آگئی۔ میں نے سوامی سے پوچھا ’’ اسکا علاج ہے کوئی؟‘‘تو اس نے کہا ۔ ’’ہاں ہے علاج اس کااور وہ تم کو کرنا ہوگا‘‘۔میں نے پوچھا’’ کیا علاج ہے اس کا؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’تمہیں ایک ماہ کے لیے آشرم میں رہنا ہو گا،پوجا کرنی ہوگی ،میں تمہیں اس کے بارے میں گائیڈ کردوں گا‘‘۔ میں نے سوامی جی سے کہا کہ میں اس کے پاس ضرور آؤں گی۔ اس رات میں نے اپنے شوہر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ماہ ان کو لندن جاناہے بزنس کے سلسلے میں اس لیے وہ تو ادھر ہوں گئے نہیں۔میں نے کہا کہ میں اپنی امی کو بلا لوں گی کچھ عرصے بچے کی دیکھ بھال کے لیے۔اگلے دن میں نے سوامی جی کو گھر بلایا اور کہا میں تیا ر ہوہوں اس نے مجھے ایڈریس دیا اور چلا گیا۔میں نے پیکنگ کی اور آشرم جانے کے لیے روانہ ہو گئی جو دہلی سے باہر ہے۔ آشرم پہنچی تو وہاں ایک گوروکال میرا انتظار کر رہا تھا وہ مجھے آشرم کے اندر لے گیااور مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں مجھے رہنا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد سوامی میرے پاس آیا اور کہا کہ میرے پوجا آج رات کو شروع ہو جائے گی۔پھر رات ۱۰ بجے سوامی میرے پاس آیا اور ایک بیگ دیاجس میں کپڑے تھے اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ میں اس کے پیچھے چلتی رہی۔ ہم آشرم سے نکل کر باہر آگئے اور پیدل چلنے لگے۔ ۴۰ منٹ چلنے کے بعد ایک چھوٹاسا گھر آیا ۔ سوامی اس میں داخل ہوا۔میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اس میں داخل ہو گئی۔سوامی نے مجھے وہ کپڑے پہننے کو کہا جو اس نے مجھے دیئے تھے۔میں نے کپڑے پہنے جو کہ ایک سفید رنگ کی ساڑھی تھی لیکن بلاؤز نہیں بدلا۔سوامی مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔’’ میرے بچے تمہیں صرف وہ ہی کپڑے پہننے ہوں گئے جو میں نے تمہیں دیئے ہیں‘‘۔میں نے پوچھا میں بلاؤزبھی نہیں پہن سکتی؟اس نے کہا’’ نہ صرف بلاؤز بلکہ کچھ بھی نہیں پہننا سوائے ان کپڑوں کے جو میں نے دیئے ہیں‘‘۔مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔اس نے کہا ’’پوجا اس طریقے سے شروع ہو گی‘‘۔میں نے وہ کیا جس کا سوامی نے کہا۔ مجھے اپنا جسم نمایاں ہوتا ہوا محسوس ہوا۔جب میں واپس آئی تو اس نے ایک منتر پڑھا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔پھروہ ایک کمرے میں آگیا ۔ میں اس کے پیچھے تھی۔ اس نے مجھے پانی کا گلاس پینے کو دیااور کہا کہ ساڑھی اتار کر فرش پر لیٹ جاؤ۔میں پریشان ہو گئی۔حیرت کے مارے میرے منہ سے آواذ نہیں نکل رہی تھی۔’’سوامی جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔تو وہ بولا ’’تمہارے بیٹے کا ستارہ بد اثرات کی لپیٹ میں ہے،اس کا اثر ختم کرنے کے لیے یہ سب کرنا ہو گا،اس کے لیے تمہیں سارے کپڑے اتارنے ہوں گئے‘‘۔ میں نے کہا’’ پر سوامی جی میں تو عورت ہوں میں کیسے کپڑے اتار سکتی ہوں‘‘۔ تو اس نے کہا’’یہ پوجا ہے پریشان مت ہو۔ تم ساڑھی اتار دو ورنہ یہ علاج شروع نہیں ہو سکے گا‘‘۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ساڑھی اتارنا شروع کر دی۔ اب میرا نازک جسم بالکل کپڑوں کے بغیر تھا۔سوامی کی نظریں میرے جسم کا طواف کر رہیں تھیں۔میں نے ذمین پر ساڑھی بچھائی اور اس پر لیٹ گئی۔ سوامی اب میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔میرے گلابی نپل سردی کی وجہ سے اکڑ رہے تھے۔مجھے سوامی کی نظریں اپنے جسم میں گڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے مجھے ریپ کر رہا ہو۔اس نے تیل جیسی کوئی چیز اپنی ہاتھ پر ڈالی اور اور میری ناف میں ڈالنے لگا۔مجھے شاک لگا۔وہ بولا ’’میں تمہیں بداثرات سے دور لانا چاہتا ہوں تاکہ علاج کے بعد تم اس سے مکمل طور پر بچ سکو‘‘۔اس نے اپنے کھردرے ہاتھوں سے میرے پیٹ پر تیل جیسی چیز کو ملنا شروع کیا اور اس کے ہاتھ اوپر ہوتے ہوئے میری دودھ کی وادیوں تک پہنچنے لگے۔ میں اپنی نازک چھاتیوں پر اس کی کھردری انگلیوں کا دباؤ محسوس کر رہی تھی۔میرے پنکش نپل اب لال ہو چکے تھے اور سخت بھی۔ لیکن اس نے ابھی تک ان کو چھوا نہ تھا۔وہ میرے دودھ کی اوپر کی لکیروں اور دودھ کے نیچے والی جگہ پر ہاتھ سے مساج کر رہا تھا۔پھروہ اپنا ہاتھ میری بغلوں تک لے گیا۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ میں نے کہا’’ سوامی جی آرام سے کریں گدگدی ہوتی ہے‘‘۔اس نے کہا’’ شانت رہو مجھے تمہارے جسم کا ہر حصہ کور کرنا ہے‘‘۔پھر اس کے ہاتھ میرے کھڑے نپلوں تک گئے۔ میری منہ سے عجیب سی آواذ نکلنے لگی’’ آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ اوہہ آؤچ‘‘۔میری آواذوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے میرے نپل ہاتھ سے ملنا اور مسلنا شروع کر دئیے۔اس کر کھردری کھال سے میر نپل مزید تن گئے تھے۔میں کہنے لگی ’’سوامی جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔مہربانی کر کے جلدی پوجا ختم کریں‘‘۔اب اس نے تیل میر ی نیچے کی وادی میں لگانا شروع کیا۔میں اپنی چوت کے سوراخ میں کچھ گیلا گیلا محسوس کر رہی تھی۔ اس نے میری دونوں ٹانگیں پھیلائیں۔ اب میر ی وادی کا سوراخ اس کے بالکل سامنے تھاجو کہ ملائم بالوں سے ڈھکا ہو ا تھا۔ اب اس کھردرے ہاتھ میری وادی کی اوپر سیر کر رہے تھے۔میں مدہوش ہو رہی تھی۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔میں اب مزہ لے رہی تھی۔سوامی نے پوچھا سونالی تم کیا چاہتی ہو؟میں نے پوچھا سوامی جی آپ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟اس نے کہا سونالی میں تمہیں چاہتا ہوں ۔ کیا تم مجھے چاہتی ہو؟میں نے کہا ’’میں آپ کو چاہتی ہوں سوامی جی! مجھے لے لو‘‘۔اور اس نے اپنی موٹی انگلی میری چوت میں داخل کر دی ۔ میں ذور سے چلائی’’آؤچ‘‘ ۔وہ آہستہ سے اوپر آیا اور میرے نرم نرم دودھ سے ذیادہ سفید گالوں کو چومنے لگا ۔ اس کے بالوں والے منہ سے میں پاگل ہورہی تھی ۔سوامی بھی میرے گالوں کو بے تحاشہ چوم اور چاٹ رہا تھا۔ایک نرم و نا زک جسم ایک ۶۵ سالہ بڈھے کے ہاتھوں میں تھا۔کافی دیر میرے گالوں کو چومنے کے بعد وہ ہونٹوں پر آیا۔وہ اپنے موٹے کالے ، کھردرے ہونٹوں میں میرے کومل،ملائم ہونٹ لے کر چوسنے لگا۔ میرے شہد کی طرح میٹھے ہونٹوں نے سوامی کو تو پاگل بنا دیا تھا۔ وہ مزے سے میرے اوپر لیٹ کر میرے ہونٹوں کو چو س رہا تھا۔ ۲۰منٹ میرے ہونٹوں کا رس پینے کے بعدوہ میرے کانوں کے نرم حصے کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اس کے بعد وہ میرے گلے سے ہوتا میرے چھاتیوں تک آیا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا ’’سونالی میں تمہارا دودھ پینا چاہتا ہوں (ان دنوں میرا بچہ دودھ پیتا تھااس لیے میری چھاتیاں ہر وقت دودھ سے بھری رہتیں تھیں)۔ میں جانتا ہوں یہ تم نے اپنے بچے کے لیے رکھا ہو ا ہے لیکن میں اسے چکھنا چاہتا ہوں۔ کیا میں پی سکتا ہوں؟‘‘۔میں نے کہا ’’سوامی جی، جی بھر کر میرا دودھ پیؤ‘‘۔یہ سنتے ہی وہ کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح میرے ناذک نپلوں پر اپنے بالوں سے بھرے منہ کے ساتھ جھپٹااور اپنی ذبان میرے نپل کے گرد پھیرنے لگااوراسے منہ میں بھر کر چوسنے لگا ،اور میرا دودھ میرے چھاتیوں سے نکل کر سوامی کے منہ میں جانا شروع ہو گیااور وہ اسے کسی بھوکے بچے کر طرح پینا شروع ہو گیا۔ وہ بہت ذور سے میرے چھاتیاں چوس رہا تھا۔اس کے نپل چوسنے سے پچ پچ پچ پچ پچ کی آواذیں آرہی تھیں جو مجھے اور ذیادہ گرم کر رہی تھیں۔اس نے اپنی بھوک میرے ملائم نپلوں سے مٹائی جن کو صرف میرے شوہر کو چھکنا چاہیے تھا۔جب وہ میرا دودھ پینے میں مصروف تھا،میں نے اس کی دھوتی اتار دی۔میں نے اس کا موٹا لن دیکھاجس میں ساری لال لال نسیں اس کی ٹوپی کی طرف جا رہی تھیں اور اسے کسی لوہے کی ماند کھڑا کیا ہوا تھا۔سوامی نے میری طرف شہوت بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے میرے اشارے کا منتظر ہو۔ میں نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔میر ا اشارہ پاتے ہی وہ میری گوشت سے بھری رانوں کے درمیان آگیا۔اور اپنا لن میری پیشاب والی نالی پر رگڑنے لگا۔میں لزت کی انتہاپر پہنچ گئی تھی۔وہ بولا سونالی تم کسی کنواری لڑکی کر طرح ٹائٹ ہو۔ تیار ہو اپنی چوت مجھ سے پھٹوانے کے لیئے۔میں نے کہا سوامی جی پھاڑ دو میری چوت، سما جاؤ مجھ میں۔یہ سنتے ہی سوامی نے اپنا لن جو ۷ انچ لمبا اورڈھائی انچ موٹا تھا کی ٹوپی میری چوت کے اندر ڈالی۔ وہ اندر جاتے ہی پھنس گئی۔ مجھے کافی درد ہوئی کیونکہ میرے شوہر کا لن سوامی کے مقابلے میں کافی چھوٹا تھا۔سوامی نے ایک اورجھٹکا مارااور اس کا لن ۳ انچ تک میری پھدی میں اترگیا۔ مجھے بہت تکلیف ہو رہی تھی لیکن میں برداشت کر رہی تھی۔سوامی نے تھوڑا انتظار کیا اور دوبارہ ذور لگایا۔دو تین جھٹکوں میں اس نے لن جڑ تک اندر کر دیا۔میں نے درد سے رونا شروع کر دیاسوامی رک گیا اس نے جھک کر میرے دودھ منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دئے۔آہستہ آہستہ میرا درد ختم ہوتا گیا۔اب سوامی نے ہلنا شروع کیا۔ میں نے بھی مزے سے آوازیں نکالنا شروع کر دی جن کو سن کر سوامی نے ذور دار جھٹکے دینا شروع کیئے۔ میرے منہ سے درد اور مزے سے ملی جلی آواذیں نکل رہی تھیں’’آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہ‘‘۔ سوامی جی مجھے بہت ذور سے چود رہے تھے۔ میری چوت بالکل گیلی ہوگئی تھی۔ اچانک میری چوت نے جھٹکا کھایا اور میں فارغ ہو گئی۔لیکن سوامی فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔میں دوسری بار پھر جھڑ گئی ۔میر ا جسم اب کانپ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد سوامی نے شور مچایامیں چھٹنے والاہوں۔میں نے کہا ’’سوامی جی میرے اندر ہی منی چھوڑ دو اپنی‘‘۔اوراس نے اپنا لاوہ میری چوت میں اگل دیا۔مجھے اپنی چوت میں سوامی کا گرم گرم پانی محسوس ہو رہا تھااور میری چوت سے نکلتا ہوا فرش پر گر رہا تھا۔ میرے شوہر کی کبھی اتنی منی نہیں نکلی تھی جتنی سوامی نے میرے اندر چھوڑی تھی۔ اس کے بعد سوامی نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پھر سے میری چھاتی منہ میں ڈال کر میرا دودھ پینے لگا۔کچھ دیر میں مجھے اپنی گانڈ میں سوامی کا لن چبھتاہوا محسوس ہوا۔اس کالن پھر سے کھڑا ہونے لگا تھا۔ سوامی نے مجھے گود سے اتارا اور الٹا ہو کر گھوڑی بنے کو کہا۔میں نے کہا’’سوامی جی میرے اندر اب اور ہمت نہیں‘‘۔ اس نے کہا’’ کچھ نہیں ہوتا‘‘۔یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے چومنا شروع کر دیا۔میرے گال چوستاتو کبھی چاٹتا۔میں پھر سے مدہوش ہونے لگی تھی۔ اسے مجھے پھر گھوڑی بننے کو کہا۔میں الٹی ہو کر گھوڑی بن گئی۔ اب میری گانڈ سوامی کی طرف ہو گئی۔ میں سمجھی کہ سوامی اب میر چوت پیچھے کی طرف سے مارے گا۔ رام(میرے شوہر) کئی بار اس پوزیشن میں میری چوت مارتے تھے۔ سوامی جی نے انگلی میری گانڈمیں ڈالی۔ مجھے بہت درد ہوئی۔ میں نے پوچھا’’ سوامی جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ ۔ سوامی بولا’’ اب میں تمہاری گانڈ ماروں گا‘‘۔ میں ڈر گئی۔میں نے کہا سوامی جی میں نے کبھی گانڈ نہیں مروائی، میں مر جاؤں گی ، آپ کا لن بہت بڑا ہے‘‘۔ سوامی بولا’’ شروع میں تھوڑا درد ہوگا، بعد میں بہت مزہ آئے گا‘‘۔ یہ کہہ کر سوامی نے پاس پڑی بوتل سے تیل نکال کر میر ی گانڈ میں ڈالا اور اپنی انگلی اندر ڈالی۔جب وہ رواں ہوئی تواس نے اپنی دو پھر تین انگلیاں میری گانڈ میں ڈال دیں۔ پھرجب اس کی تین انگلیاں اندر جانے لگیں تو اس نے اپنے لن کی ٹوپی میری گانڈ کے پتلے سے سوراخ پر رکھی اور جھٹکا مارا تو اس کی ٹوپی میری خوبصورت گانڈ میں پھنس گئی۔ میں چلانے لگی اور سوامی کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے مضبوطی سے پکڑا ہو ا تھا۔ میں ویسے بھی اس سانڈ کے مقابلے میں کمزور تھی۔ میں اپنی کوشش میں ناکام ہوئی۔اس نے ایک جھٹکا اور لگایا اور اس کا لن آدھے سے زیادہ میری گانڈ کو چیرتے ہوئے اندر تک چلا گیا۔میری سانس رک گئی۔ میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔میں نے سوامی کی منت کی کہ مجھے چھوڑ دے لیکن اس پر بھو ت سوار تھا میری ریشم سے ذیادہ ملائم گانڈ مارنے کا۔ اس نے میری ایک نہ سنی اور ایک اور شدید جھٹکا مارا اور اس کا لن میری گانڈ کی گہرائیوں تک اتر گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیراآگیا۔ مجھے اتنا درد تو اپنی سہاگ رات کو پہلی بار چوت مروانے پر بھی نہیں ہوا تھا۔ سوامی نے پھر دھکے مارنا شروع کر دیئے۔ساتھ ساتھ وہ میری چھاتیاں بھی دبا رہا تھا۔ میں شدید تکلیف میں تھی اور سوامی مزے کی دنیا میں مگن میری تکلیف سے لاتعلق ہو کر میری گانڈ چود رہا تھا۔ ۳۵ منٹ کی ازیت ناک چدائی کے بعد وہ میری گانڈ کے اندر خلاص ہو گیا۔ اس کی منی میری گانڈ سے نکل کر باہر گر رہی تھی۔ اس کے بعد میں کھڑی ہوئی تو میں توازن برقرا ر نہ رکھ سکی اور گر گئی۔ سوامی نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور ساتھ بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے لیئے گرم دودھ لے کر آیا اور مجھے پینے کو دیا۔دودھ پینے کے بعد مجھے تھوڑا سکون آیا۔ اس کے بعد سوامی میرے گود میں سر رکھ کر میری چھاتی چوس کر میرا دودھ پینے لگا۔ جب میری چھاتی خالی ہو گئی تو بولا ’’ تمہارا میٹھا میٹھا دودھ پینے کے بعد ساری طاقت بحال ہوجاتی ہے جو تمہیں چودنے میں ضائع ہوئی تھی، تمہارا شوہر کتنا خوش نصیب ہے جسے تم جیسی خوبصورت اور میٹھے دودھ والی بیوی ملی ہے‘‘ پھر وہ اٹھا۔مجھے سہارا دے کر باتھ روم لے گیا۔میں نے اپنا جسم صاف کیا اور شاور لیا۔اگلے دن میں گھر جاتا چاہتی تھی چونکہ ویسے تو مجھے چوت چدوانے کا بہت مزہ آیا تھاپر سوامی نے میری گانڈ کا ستیا ناس کر کے بہت تکلیف دی تھی لیکن سوامی نے مجھے بلیک میل کیا کہ وہ میرے شوہر کو سب کچھ بتا دے گا۔میں اپنی بدنامی کے ڈر کی وجہ سے سوامی کی بات ماننے پر مجبور تھی۔اس کے بعد میں سوامی نے مجھے ایک مہینہ اپنے پاس رکھا اور روز مجھے چودتا تھا۔
0 comments:
Post a Comment